نظروں کا محبت بھرا پیغام بہت ہے
مجبور وفا کے لئے انعام بہت ہے
کچھ بادہ و ساغر کی ضرورت نہیں مجھ کو
آنکھوں سے چھلکتی مئے گلفام بہت ہے
کیا حال ہو کیا جانے شب غم کی سحر کا
بیتابیٔ دل آج سر شام بہت ہے
توہین محبت ہیں محبت میں یہ شکوے
لگتا ہے ابھی حسن طلب خام بہت ہے
بے وجہ مجھے بے وفا کہتے تو ہو لیکن
تم پر بھی اسی قسم کا الزام بہت ہے
نادان رہ عشق کو آسان نہ سمجھیں
اس راہ میں کٹھنائی بہ ہر گام بہت ہے
اس شوق اداؤں کو کوئی کچھ نہیں کہتا
چرچا مری الفت کا سر عام بہت ہے
کچھ آ ہی گیا دوست کا دشمن کا سلیقہ
احسان ترا گردش ایام بہت ہے
افکار زمانہ کبھی افکار محبت
ہے زندگی تھوڑی سی مگر کام بہت ہے
اے موجؔ سکوں بخش ہیں امواج محبت
آغوش میں طوفاں کے بھی آرام بہت ہے

غزل
نظروں کا محبت بھرا پیغام بہت ہے
موج فتح گڑھی