EN हिंदी
نظریں ملیں چراغ جلے روشنی ہوئی | شیح شیری
nazren milin charagh jale raushni hui

غزل

نظریں ملیں چراغ جلے روشنی ہوئی

عطا حسین کلیم

;

نظریں ملیں چراغ جلے روشنی ہوئی
لو دے اٹھی پھر اپنی طبیعت بجھی ہوئی

خون جگر سے نکھرے خد و خال آرزو
دل کے لہو سے شاخ تمنا ہری ہوئی

اب صبح نو بہار کی کیا آرزو کریں
اک شاخ آشیاں ہے سو وہ بھی جلی ہوئی

پھر یاد آ گئیں شب ہجراں کی تلخیاں
دل کو کبھی خوشی جو گھڑی دو گھڑی ہوئی

بھڑکا دیا اسے ترے دو دن کے پیار نے
اک عمر سے جو آگ تھی دل میں دبی ہوئی

دل ہی تو ایک دیر و حرم کا چراغ تھا
دل بجھ گیا تو پھر نہ کہیں روشنی ہوئی

دنیا بجز طلسم نظر اور کچھ نہیں
خود کو دئے فریب اگر آگہی ہوئی

وہ چاند رات تیرا بچھڑنا نظر میں ہے
اس گھر میں تیرے بعد کہاں روشنی ہوئی

اس خود فریب دل نے وہ رسوا کیا ہمیں
ہم اپنے ہو سکے نہ تری بندگی ہوئی

آباد جس سے تھیں مری تنہائیاں کلیمؔ
نظروں میں ہے وہ محفل یاراں سجی ہوئی