نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا
یہ واہمہ ابھی امکان تک نہیں آیا
جراحت غم دوراں کی ابتدا کہیے
دل جہاں زدہ پیکان تک نہیں آیا
وہ اور بات کہ جاں کی امان مانگی تھی
میں اس کی بیعت و پیمان تک نہیں آیا
بس اس کے لمس کا الہام ہی اترتا ہے
وہ میرے مصحف وجدان تک نہیں آیا
یہ زندگی تو نفی میں گزار دی میں نے
پر اس کے حلقۂ میزان تک نہیں آیا
کتاب حسن کی تعبیر خیر کیا کرتا
ندیمؔ آئنہ عنوان تک نہیں آیا
غزل
نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا
کامران ندیم