نظر سے دور رہے یا نظر کے پاس رہے
ہمیشہ عشق کے موسم بہت ہی خاص رہے
میں تیرے ذکر کی وادی میں سیر کرتا رہوں
ہمیشہ لب پہ ترے نام کی مٹھاس رہے
یہ اضطراب جنوں کو بہت اکھرتا ہے
کہ تم قریب ہو تن پر کوئی لباس رہے
وہ رو بہ رو تھے تو آنکھوں سے دور چل نکلے
کھلی نہ بوتلیں خالی سبھی گلاس رہے
یہ بات راز کی دادی نے ہم کو بتلائی
ہماری عمر میں ابا بھی دیوداس رہے
میں کہکشاؤں میں خوشیاں تلاشنے نکلا
مرے ستارہ مرا چاند سب اداس رہے
میں منتظر ہوں کسی ایسے وصل کا جس میں
مرے بدن پہ ترے جسم کا لباس رہے
تری حیات سے جڑ جاؤں واقعہ بن کر
تری کتاب میں میرا بھی اکتساب رہے
غزل
نظر سے دور رہے یا نظر کے پاس رہے
سراج فیصل خان