نظر سے دور ہیں دل سے جدا نہ ہم ہیں نہ تم
گلہ کریں بھی تو کیا بے وفا نہ ہم ہیں نہ تم
ہم اک ورق پہ تو ہیں دو حروف کی صورت
مگر نصیب کا لکھا ہوا نہ ہم ہیں نہ تم
ہماری زندگی پرچھائیوں کی خاموشی
قریب لاتی ہے جو وہ صدا نہ ہم ہیں نہ تم
ہم ایک ساتھ ہیں جب سے یہ روگ ہیں تب سے
کسی بھی روگ کی لیکن دوا نہ ہم ہیں نہ تم
ہمارے جسم ہیں پانی پہ جیسے تصویریں
بکھرتے رنگوں کے دکھ کا صلہ نہ ہم ہیں نہ تم
دہائیاں جو نہیں دیں ظفرؔ ستم سہہ کر
سمجھ رہی ہے یہ دنیا خفا نہ ہم ہیں نہ تم

غزل
نظر سے دور ہیں دل سے جدا نہ ہم ہیں نہ تم
صابر ظفر