EN हिंदी
نظر پہ بیٹھ گیا جو غبار کس کا تھا | شیح شیری
nazar pe baiTh gaya jo ghubar kis ka tha

غزل

نظر پہ بیٹھ گیا جو غبار کس کا تھا

سید منیر

;

نظر پہ بیٹھ گیا جو غبار کس کا تھا
دلوں سے کم نہ ہوا جو شرار کس کا تھا

نہ کوئی شکل تھی دل میں نہ لب پہ نام کوئی
تمام عمر مجھے انتظار کس کا تھا

مرے لئے تو وہ ٹھہرا نہ ایک پل بھر کو
نہ جانے قافلۂ نوبہار کس کا تھا

یہ کس کے حسن سے یادوں کی بن گئی تصویر
دل آئنہ پہ سنہرا غبار کس کا تھا

پڑے رہیں گے اسی سوچ میں قیامت تک
ہمارے بعد دل بے قرار کس کا تھا

خیال و خواب کی راتوں سے جو ابھرتا ہے
وہ ایک نور بدن کا نکھار کس کا تھا

وہ ادھ کھلا سا دریچہ وہ چاہ کی خوشبو
مرا نہیں تھا تو پھر انتظار کس کا تھا

یہ کس نے شور سلاسل کو نغمگی دے ہی
رہ وفا میں قدم بار بار کس کا تھا

تمہارے جبر کی تائید تھا مرا منشا
سمجھ میں آ نہ سکا اختیار کس کا تھا

یہ کس لئے سوئے گل بھی نگاہ جاتی تھی
تم آ چکے تھے تو پھر انتظار کس کا تھا

مری وفا کا بگولہ تو ایک تھا لیکن
مرے سوا سر صحرا غبار کس کا تھا

بہت دنوں سے یہی اک سوال ہے دل میں
جو میں نے سب کو دیا تھا وہ پیار کس کا تھا

منیرؔ جب بھی چلے کوئی راستہ نہ ملا
وجود راہ گزر اعتبار کس کا تھا