نظر نیچی ہے یار خوش نظر کی
کرامت ہے یہ میری چشم تر کی
مبارک تجھ کو اے سرو خراماں
جوانی دھوپ جیسے دوپہر کی
اسی کو لطف آیا زندگی کا
جنوں میں زندگی جس نے بسر کی
یہاں پرواز کے آداب سیکھو
اسیری تربیت ہے بال و پر کی
سفر کٹتا ہے اکثر بے خودی میں
ادائیں یاد ہیں اک ہم سفر کی
خوشا اے سوز غم تیری بدولت
دعاؤں پر عنایت ہے اثر کی
وہ خوش ہیں وجدؔ عرض حال کر لے
یہاں فرصت نہیں عرض ہنر کی
غزل
نظر نیچی ہے یار خوش نظر کی
سکندر علی وجد