EN हिंदी
نظر نیچی ہے یار خوش نظر کی | شیح شیری
nazar nichi hai yar-e-KHush-nazar ki

غزل

نظر نیچی ہے یار خوش نظر کی

سکندر علی وجد

;

نظر نیچی ہے یار خوش نظر کی
کرامت ہے یہ میری چشم تر کی

مبارک تجھ کو اے سرو خراماں
جوانی دھوپ جیسے دوپہر کی

اسی کو لطف آیا زندگی کا
جنوں میں زندگی جس نے بسر کی

یہاں پرواز کے آداب سیکھو
اسیری تربیت ہے بال و پر کی

سفر کٹتا ہے اکثر بے خودی میں
ادائیں یاد ہیں اک ہم سفر کی

خوشا اے سوز غم تیری بدولت
دعاؤں پر عنایت ہے اثر کی

وہ خوش ہیں وجدؔ عرض حال کر لے
یہاں فرصت نہیں عرض ہنر کی