نظر نظر میں تمنا قدم قدم پہ گریز
جہاں جہاں بھی ملے کوہ کن وہیں پرویز
گھٹا گھٹا سا دھندلکا ہے قصر و ایواں میں
نکل چلو جہاں میداں میں روشنی ہے تیز
ترے کرم پہ بھی اندیشہ ہائے دور و دراز
ملے ہیں جام و سبو وہ بھی زہر سے لبریز
نمود خار مغیلاں ہے باغباں کو پسند
زمین لالہ و گل ورنہ ہے بہت زرخیز
سکوں ملا ہے کنیزوں کو خواب شیریں کا
جو کوہ کن نے سنبھالی ہے دولت پرویز
تغیرات خیالات ارتقائے حیات
تصادم نظریات فتنۂ چنگیز
گزر رہے ہیں شب و روز اس طرح ماہرؔ
نہ زندگی سے محبت نہ زندگی سے گریز
غزل
نظر نظر میں تمنا قدم قدم پہ گریز
اقبال ماہر