EN हिंदी
نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے | شیح شیری
nazar nazar be-qarar si hai nafas nafas mein sharar sa hai

غزل

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے

ساغر صدیقی

;

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جانتا ہوں کہ تم نہ آؤ گے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

مرے عزیزو مرے رفیقو چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے

وہی فسردہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگاہوں میں بار سا ہے

کبھی تو آؤ کبھی تو بیٹھو کبھی تو دیکھو کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جانچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے

یہ زلف بردوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے