نظر ملی تھی کسی بے خبر سے پہلے بھی
صدائے تشنہ اٹھی تھی جگر سے پہلے بھی
یہ سحر کم ہے کہ شاداب ہو گیا صحرا
بہے تھے اشک بہت چشم تر سے پہلے بھی
نیا نہیں ہے تقاضائے شیشہ و تیشہ
گزر چکا ہوں میں اس درد سر سے پہلے بھی
میں خاک چھاننے والا سواد صحرا کا
پڑے تھے پاؤں میں چھالے سفر سے پہلے بھی
حصار لفظ و بیاں میں نہ رہ سکا نامیؔ
کہ آشنا تھا مقام ہنر سے پہلے بھی

غزل
نظر ملی تھی کسی بے خبر سے پہلے بھی
نامی انصاری