نظر میں اک جہاں ہے اور تمنا کا جہاں وہ بھی
جو طیر فکر ہے رہتا ہے ہر دم پرفشاں وہ بھی
ذرا ٹھہرو کہ پڑھ لوں کیا لکھا موسم کی بارش نے
مری دیوار پر لکھتی رہی ہے داستاں وہ بھی
محبت میں دلوں پر جانے کب یہ سانحہ گزرا
جگہ شک نے بنا لی اور ہمارے درمیاں وہ بھی
سنو اے رفتگاں رہتا نہیں کچھ فاصلہ اتنا
بس اک دیوار باقی ہے مری دیوار جاں وہ بھی
جہاں پر نارسائی ہی ریاضت کا صلہ ٹھہرے
ہمیں دل نے سکھا رکھا ہے اک کار زیاں وہ بھی
نئے امکان کی جانب سفر میں جب تردد ہو
صدا کانوں میں آتی ہے صدائے کن فکاں وہ بھی
کسی دل دار ساعت میں کسی محبوب لہجے کا
دکھاتی ہے تماشہ اور مری عمر رواں وہ بھی

غزل
نظر میں اک جہاں ہے اور تمنا کا جہاں وہ بھی
مجید اختر