نظر میں دھول فضا میں غبار چاروں طرف
ضرور پھیلے گا اب انتشار چاروں طرف
تجھے بھی وادیٔ ہو نے قبول کر ہی لیا
اب اپنے آپ کو پھر سے پکار چاروں طرف
چلے بھی آؤ کہیں کچھ گماں تو باقی رہے
کہ ڈھل رہی ہے شب انتظار چاروں طرف
سمجھ نہ پایا کوئی درد بکھرے لمحوں کا
یہ شام پھر سے ہوئی اشک بار چاروں طرف
تو اب کی بار نہ بچ کر نکلنے پائے گا
سفر میں دیکھ طلسمی حصار چاروں طرف
یہاں بہشت سے آئی ہے ایک سبز پری
اسی لیے ہے فضا میں نکھار چاروں طرف
غزل
نظر میں دھول فضا میں غبار چاروں طرف
راشد انور راشد