EN हिंदी
نظر میں عرش بریں ہے کسی کو کیا معلوم | شیح شیری
nazar mein arsh-e-barin hai kisi ko kya malum

غزل

نظر میں عرش بریں ہے کسی کو کیا معلوم

سیما شکیب

;

نظر میں عرش بریں ہے کسی کو کیا معلوم
کہاں یہ خاک نشیں ہے کسی کو کیا معلوم

تمام ہیچ ہے دنیا علائق دنیا
جو نقش زیب جبیں ہے کسی کو کیا معلوم

تمہیں خبر ہی نہیں کیا ہے ورثۂ درویش
جہان زیر نگیں ہے کسی کو کیا معلوم

بلا سبب تو یہ لرزش ہوا نہیں کرتی
جو آگ زیر زمیں ہے کسی کو کیا معلوم

نہ در کھلا نہ دریچے کبھی کھلے دیکھے
مکاں میں کون مکیں ہے کسی کو کیا معلوم

وہ ایک لفظ جو اترا نہ زینۂ لب سے
ہمیں اسی کا یقیں ہے کسی کو کیا معلوم

پیامبر کی ضرورت نہ شرح دل کا خیال
وہ کس کا بلا ذہیں ہے کسی کو کیا معلوم