EN हिंदी
نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے | شیح شیری
nazar ko waqf-e-hairat kar diya hai

غزل

نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے

اسلم کولسری

;

نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے
اسے بھی دل سے رخصت کر دیا ہے

برائے نام تھا آرام جس کو
غزل کہہ کر مصیبت کر دیا ہے

سمجھتے ہیں کہاں پتھر کسی کی
مگر اتمام حجت کر دیا ہے

گلی کوچوں میں جلتی روشنی نے
حسیں شاموں کو شامت کر دیا ہے

بصیرت ایک دولت ہی تھی آخر
سو دولت کو بصیرت کر دیا ہے

کئی ہمدم نکل آئے ہیں جب سے
زباں کو صرف غیبت کر دیا ہے

سخن کے باب میں بھی ہم نے اسلمؔ
جو کرنا تھا بہ عجلت کر دیا ہے