نظر جن کی الجھ جاتی ہے ان کی زلف پیچاں سے
وہی بڑھ کر لپٹ جاتے ہیں اکثر موج طوفاں سے
اگر شرما رہا ہے مہر تاباں حسن جاناں سے
شفق بھی تو خجل ہے سرخی خون شہیداں سے
مرے جوش جنوں کو چھیڑتا ہے کس لئے ہمدم
اٹھیں گی آندھیاں لاکھوں اشارے ہیں بیاباں سے
ڈبو کر دیکھ کشتی تمنا بحر ہستی میں
ابھر آئے گا خود ساحل کسی نوخیز طوفاں سے
مجھے مرنا مبارک بس تمنا ہے تو اتنی ہے
بجھا دیں وہ چراغ زندگی خود اپنے داماں سے
سنبھل کر رہروان راہ الفت سخت منزل ہے
صدائیں آ رہی ہیں آج تک گور غریباں سے
ہجوم یاس ہی اقبالؔ تمہید مسرت ہے
خوشی کا باب کھلتا تو ہے لیکن غم کے عنواں سے
غزل
نظر جن کی الجھ جاتی ہے ان کی زلف پیچاں سے
اقبال حسین رضوی اقبال