EN हिंदी
نظر حیرت زدہ سی ہے قدم بہکے ہوئے سے ہیں | شیح شیری
nazar hairat-zada si hai qadam bahke hue se hain

غزل

نظر حیرت زدہ سی ہے قدم بہکے ہوئے سے ہیں

محشر عنایتی

;

نظر حیرت زدہ سی ہے قدم بہکے ہوئے سے ہیں
شباب آیا ہے ان پر اور ہم بہکے ہوئے سے ہیں

ابھی ان کے کرم کی بات اپنے حسن ظن تک ہے
مگر امید واران کرم بہکے ہوئے سے ہیں

وفا کے سلسلے میں ہو ہی جاتی ہے غلط فہمی
وہ بہکائے گئے سے ہیں نہ ہم بہکے ہوئے سے ہیں

بڑے ذی ہوش بنتے تھے مئے عشرت کے متوالے
ہوا ہے جب سے کچھ احساس غم بہکے ہوئے سے ہیں

انہیں آئینہ رخ کہئے انہیں کے سامنے جا کر
یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ ہم بہکے ہوئے سے ہیں

کہا کرتے تھے ہم اکثر کہ راہ زندگی ہے کیا
جو اب دیکھے ہیں اس کے پیچ و خم بہکے ہوئے سے ہیں

مری دنیا ہے یہ اہل جنوں کیا ہوش والے کیا
مری دنیا میں سب ہی بیش و کم بہکے ہوئے سے ہیں

خدا رکھے چلے ہیں منزل جاناں کو سر کرنے
وہ دیکھو نا یہیں جن کے قدم بہکے ہوئے سے ہیں

ہر اک نے مجھ کو دیوانہ ہی ٹھہرایا ہے اے محشرؔ
سبھی قصہ نگاروں کے قلم بہکے ہوئے سے ہیں