نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے
کہ اب تلک نہیں آئے ہیں لوگ جب کے گئے
کرے گا کون تری بے وفائیوں کا گلہ
یہی ہے رسم زمانہ تو ہم بھی اب کے گئے
مگر کسی نے ہمیں ہم سفر نہیں جانا
یہ اور بات کہ ہم ساتھ ساتھ سب کے گئے
اب آئے ہو تو یہاں کیا ہے دیکھنے کے لئے
یہ شہر کب سے ہے ویراں وہ لوگ کب کے گئے
گرفتہ دل تھے مگر حوصلہ نہ ہارا تھا
گرفتہ دل میں مگر حوصلے بھی اب کے گئے
تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ہو فرازؔ
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
غزل
نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے
احمد فراز