نظر بچا کے وہ ہم سے گزر گئے چپ چاپ
ابھی یہیں تھے نہ جانے کدھر گئے چپ چاپ
ہوئی خبر بھی نہ ہم کو کب آئے اور گئے
نگاہ ناز سے دل میں اتر گئے چپ چاپ
دکھائی ایک جھلک اور ہو گئے روپوش
تمام خواب اچانک بکھر گئے چپ چاپ
یہ دیکھنے کے لئے منتظر ہیں کیا وہ بھی
دیار شوق میں ہم بھی ٹھہر گئے چپ چاپ
کریں گے ایسا وہ اس کا نہ تھا ہمیں احساس
وہ قول و فعل سے اپنے مکر گئے چپ چاپ
فصیل شہر کے باہر نہیں کسی کو خبر
بہت سے اہل ہنر یونہی مر گئے چپ چاپ
دکھا رہے تھے ہمیں سبز باغ وہ اب تک
انہیں جو کرنا تھا برقیؔ وہ کر گئے چپ چاپ

غزل
نظر بچا کے وہ ہم سے گزر گئے چپ چاپ
احمد علی برقی اعظمی