EN हिंदी
نظر آتی ہے دور کی صورت | شیح شیری
nazar aati hai dur ki surat

غزل

نظر آتی ہے دور کی صورت

ریاضؔ خیرآبادی

;

نظر آتی ہے دور کی صورت
آنکھ میں ہے حضور کی صورت

ایک یہ بھی ہے نور کی صورت
دیکھ لی شمع طور کی صورت

کیوں نہ ہو جان کا عذاب یہ جسم
تنگ زنداں قبور کی صورت

سر تربت کوئی ہے فتنۂ حشر
ہوئی پیدا فتور کی صورت

خانقہ میں پری تھی شیشے کی
بن کے آئی جو حور کی صورت

آ گیا کیا سوئے قفس صیاد
ہو گئی کیا طیور کی صورت

پھرتی ہے آنکھ میں بہ صد حسرت
اب دل ناصبور کی صورت

ایک ہے ایک کبریائی میں
اف وہ اس کے غرور کی صورت

حشر زا اف وہ صور کی آواز
وہ سرافیل و صور کی صورت

باڑھ تلوار کی صراط کا پل
اور مشکل عبور کی صورت

شعلہ زار ایک لالہ زار ہے ایک
سامنے نار و نور کی صورت

مضطرب اپنے حال پر ہر ایک
ہائے ہر ناصبور کی صورت

فرد عصیاں نوشتۂ تقدیر
ہائے ہر بے قصور کی صورت

آس اس کے کرم کی قہر کا ڈر
جو ہو رب غفور کی صورت

اے میں قربان شان رحمت کے
نظر آئی حضور کی صورت

کس کو پروائے کوثر و تسنیم
ہوئی پیدا سرور کی صورت

صدقے کیا جلد حشر میں بدلی
مجھ سراپا قصور کی صورت

ہو مبارک سیاہ کار ریاضؔ
نور کی شکل نور کی صورت