نظر آتا ہے اٹھتا جان سے دل سے دھواں مجھ کو
دیار عشق میں رہنا ہے اک بار گراں مجھ کو
ستم پیشہ مرے افسانۂ غم کو نہیں سنتا
سو کہنا ہے بہ انداز حدیث دیگراں مجھ کو
سواد شام ہے جلتے ہوئے خیموں کا منظر ہے
یہیں آواز دیتی ہے کوئی نوک سناں مجھ کو
مری موج رواں کی سب روانی ختم کر دے گا
بنا دے گا وہ ہر عنوان عمر رائیگاں مجھ کو
ہمیشہ دور سے وہ امتحان شوق کرتا ہے
کبھی پہلو میں بھی بٹھلائے یار مہرباں مجھ کو
بھرم رکھنا ہے کچھ تو عزت سادات کا آخر
کہ اب ہونے لگی ہیں عشق میں رسوائیاں مجھ کو
متاع نقد جاں خود راہزن کی نذر کر دیتا
اگر میں جاننا لوٹے گا میر کارواں مجھ کو
سنا آشوب وحشت اور فشار ذات کا نغمہ
ندیمؔ اب کاروان درد لے آیا کہاں مجھ کو
غزل
نظر آتا ہے اٹھتا جان سے دل سے دھواں مجھ کو
کامران ندیم