نظر آنے سے پہلے ڈر رہا ہوں
کہ ہر منظر کا پس منظر رہا ہوں
مجھے ہونا پڑے گا ریزہ ریزہ
میں سر سے پاؤں تک پتھر رہا ہوں
کسی کو کیوں میں یہ اعزاز بخشوں گا
میں خود اپنی حفاظت کر رہا ہوں
مجھی کو سرخ رو ہونے کا حق ہے
کہ میں اپنے لہو میں تر رہا ہوں
مرے گھر میں تو کوئی بھی نہیں ہے
خدا جانے میں کس سے ڈر رہا ہوں
میں کیا جانوں گھروں کا حال کیا ہے
میں ساری زندگی باہر رہا ہوں
تعلق ہے اسی بستی سے میرا
ہمیشہ سے مگر بچ کر رہا ہوں
غزل
نظر آنے سے پہلے ڈر رہا ہوں
امیر قزلباش