نظارگئ شوق نے دیدار میں کھینچا
پھر میں نے اسے اپنے ہوس زار میں کھینچا
کھلتی نظر آتی ہے قبائے گل مقصد
احساس طلب نے جو اسے خار میں کھینچا
ہے دیدنی گل کارئ احساس و تخیل
کیا عارض گل کو لب اظہار میں کھینچا
تصویر سی اک بن گئی کیا جانیے کس کی
قطروں نے نم اپنا مری دیوار میں کھینچا
تاحد نظر کھلتی گئی زلف دو عالم
احساس یہ کس کا دل بیدار میں کھینچا
غزل
نظارگئ شوق نے دیدار میں کھینچا
تالیف حیدر