نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیں
ہم ان کے ہوئے وہ ہمارے ہوئے ہیں
ہمیں تو بھلے لگتے ہیں اور بھی اب
وہ زیور کو اپنے اتارے ہوئے ہیں
نہیں پاس کچھ ایک دل ہے سو وہ بھی
قمار محبت میں ہارے ہوئے ہیں
مزے وصل میں جو اٹھائے تھے اے دل
جدائی میں اب وہ ہی آرے ہوئے ہیں
ہمیں ہوش ہے اب کہاں تن بدن کا
کہ مجذوبؔ ان کے پکارے ہوئے ہیں
غزل
نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیں
خواجہ عزیز الحسن مجذوب