نزاکت ہے نہ خوشبو اور نہ کوئی دل کشی ہی ہے
گلوں کے ساتھ پھر بھی خار کو رب نے جگہ دی ہے
کسی کی یاد چپکے سے چلی آتی ہے جب دل میں
کبھی گھنگھرو سے بجتے ہیں کبھی تلوار چلتی ہے
وہی کرتے ہیں دعویٰ آگ نفرت کی بجھانے کا
کہ جن کے ہاتھ میں جلتی ہوئی ماچس کی تیلی ہے
ہٹو کرنے دو اپنے من کی بھی ان نوجوانوں کو
یہ ان کا دور ہے ان کا سمے ہے ان کی باری ہے
گھٹن تڑپن اداسی اشک رسوائی اکیلا پن
بغیر ان کے ادھوری عشق کی ہر اک کہانی ہے
کبھی بچوں کو مل کر کھلکھلاتے ناچتے دیکھا
لگا تب زندگی یہ ہم نے کیا سے کیا بنا لی ہے
اتر آئے ہیں بادل یاد کے آنکھوں میں یوں نیرجؔ
زمیں جو کل تلک تھی خشک اب وہ بھیگی بھیگی ہے

غزل
نزاکت ہے نہ خوشبو اور نہ کوئی دل کشی ہی ہے
نیرج گوسوامی