نیا شگوفہ اشارۂ یار پر کھلا ہے
گلاب اب کے چمن کی دیوار پر کھلا ہے
یہ کیسی انگڑائی لی ہے احساس زندگی نے
مسیح کا رنگ روئے بیمار پر کھلا ہے
نفی کا جادو جگا رہی ہیں طلسمی آنکھیں
وہ حرف مطلب فصیل اظہار پر کھلا ہے
کتاب رخ ہے حجاب تقدیس حسن جاناں
یہ راز کیسا مذاق دیدار پر کھلا ہے
بہار آگیں حیات افروز پھول بن کر
لہو کا چھینٹا قبائے ایثار پر کھلا ہے
مجھے بنایا گیا تھا خاموشیوں کا پیکر
یہ غنچۂ لب کسی کے اصرار پر کھلا ہے
صباؔ کا ذوق سخن نگار غزل کے حق میں
وہ کالا تل ہے جو گورے رخسار پر کھلا ہے
غزل
نیا شگوفہ اشارۂ یار پر کھلا ہے
صبا نقوی