نیا لبادہ پرانی نشانیاں نہ گئیں
فقیہ شہر کی ریشہ دوانیاں نہ گئیں
سروں پہ تاج نہ ان کے غلام گردش میں
مگر دماغ سے کیوں راجدھانیاں نہ گئیں
بہت کشید کیا پانیوں کو سورج نے
سمندروں کی مگر بے کرانیاں نہ گئیں
فریب کھانے کے با وصف بھی کسی لمحے
دل تباہ تری خوش گمانیاں نہ گئیں
تمہاری اور سے کیا مطمئن نہیں تھے ہم
تمہاری اور سے کیوں بدگمانیاں نہ گئیں

غزل
نیا لبادہ پرانی نشانیاں نہ گئیں
جہانگیر عمران