نوید آمد فصل بہار بھی تو نہیں
یہ بے دلی ہے کہ اب انتظار بھی تو نہیں
جو بھول جائے کوئی شغل جام و مینا میں
غم حبیب غم روزگار بھی تو نہیں
مریض بادۂ عشرت یہ اک جہاں کیوں ہے
سرور بادہ بقدر خمار بھی تو نہیں
متاع صبر و سکوں جس نے دل سے چھین لیا
وہ دل نواز ادا آشکار بھی تو نہیں
قفس میں جی مرا لگ تو نہیں گیا ہمدم
کہ اب وہ نالۂ بے اختیار بھی تو نہیں
ہے عین وصل میں بھی پر خروش پروانہ
سکون قلب بہ آغوش یار بھی تو نہیں
نگاہ ناز کہ بیگانۂ محبت ہے
ستم تو یہ ہے کہ بے گانہ وار بھی تو نہیں
وہ ایک رہبر ناداں کہ جس کو عشق کہیں
ڈبو کے کشتئ دل شرمسار بھی تو نہیں
جنوں کو درس عمل دے کے کیا کرے کوئی
بقدر حوصلۂ دل بہار بھی تو نہیں
غزل
نوید آمد فصل بہار بھی تو نہیں
حبیب احمد صدیقی