نواح جاں میں کہیں ابتری سی لگتی ہے
سکون ہو تو عجب بیکلی سی لگتی ہے
اک آرزو مجھے کیا کیا فریب دیتی ہے
بجھے چراغ میں بھی روشنی سی لگتی ہے
گئی رتوں کے تصرف میں آ گیا شاید
اب آنسوؤں میں لہو کی کمی سی لگتی ہے
اسی کو یاد دلاتا ہے بار بار دماغ
وہ ایک بات جو دل میں انی سی لگتی ہے
کہ روز ایک نیا گل کھلاتی رہتی ہے
یہ کائنات کسی کی گلی سی لگتی ہے
کبھی تو لگتا ہے گمراہ کر گئی مجھ کو
سخن وری کبھی پیغمبری سی لگتی ہے
جناب شیخ کی محفل سے اٹھ چلو کہ سہیلؔ
یہاں تو نبض دو عالم رکی سی لگتی ہے
غزل
نواح جاں میں کہیں ابتری سی لگتی ہے
سہیل احمد زیدی