نواح دل میں یہ میری مثال جلتے رہیں
خس و گلاب نبات و نہال جلتے رہیں
کبھی نہ سرد پڑے گرمیٔ نشاط نفس
تمام پیکر فکر و خیال جلتے رہیں
یہ جبر وقت ہے کیسا کہ اس کی یاد کے چاند
اگیں تو پھر سر شاخ ملال جلتے رہیں
ہوائے ہجر ابھی تک ہے محو خواب کہیں
فصیل جاں پہ چراغ وصال جلتے رہیں
یوں ہی روایت تیر و کماں رہے روشن
نقوش وحشت پاۓ غزال جلتے رہیں
لگے تو قصر شب و روز میں بھی آگ لگے
جلیں تو صدیوں تلک ماہ و سال جلتے رہیں
ہم اس کی راہ میں روشن کئے گئے ہیں سو رمزؔ
کریں نہ اس سے کوئی عرض حال جلتے رہیں
غزل
نواح دل میں یہ میری مثال جلتے رہیں
محمد احمد رمز