نوجوانوں سے تہی پایا کنار پیر کو
اس کماں میں عمر بھر ہم نے نہ دیکھا تیر کو
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
مار ڈالا ڈھونڈھ کر ظالم نے مجھ نخچیر کو
چشم کیا سوفار کے بدلے ملی تھی تیر کو
ہوں میں دیوانہ مری تصویر بھی تنکے چنے
کہربا کے رنگ سے کھینچو مری تصویر کو
تو نہ بوسے دے سکا لیکن ترے دیوانے نے
سر دیا شمشیر کو اور دست و پا زنجیر کو
پڑتی ہے تیرے مکاں پر یار جو ہر اک کی آنکھ
گرد دامان نگہ منگوائی تھی تعمیر کو
ہے زباں کی صاف جنبش مصرع برجستہ میں
یار خوش تقریر کہتے ہے مری تحریر کو
حال اس غفلت کدے کا تھا عیاں روز الست
خواب دیکھا بعد پہلے سن لیا تعبیر کو
پڑ گئے ہیں سیکڑوں چھالے جو اے خونخوار خلق
کس کے خون گرم سے تو نے بھرا شمشیر کو
تو ہے وہ قاتل کہ تیرا وصف کرنے کے لیے
منہ ملا زخموں کو میرے اور زباں شمشیر کو
ہم وہ ہیں فرہاد اے شیریں اگر رکھیں قدم
دودھیا پتھر سے جاری کر دیں جوئے شیر کو
دامن اس گل کا جو اٹکا پھر کے دیکھا ناز سے
دے اب اے بلبل دعائیں خار دامن گیر کو
جا کے ٹھہری استخواں پر جب لگائی تو نے تیغ
کیوں نہ اے قاتل ہما کہئے ترے شمشیر کو
ہاتھ میں وحشی نہیں عطا تو اطفال حسیں
کھینچتے پھرتے ہیں پتھر پر مری تصویر کو
پاؤں پر دشمن گرے تو جان فکر سر میں ہے
مت سمجھ بے وجہ پائے شمع پر گلگیر کو
بارہا بجلی گرائی شعلۂ آواز نے
لن ترانی کی صدا کہئے تری تقریر کو
پستی ہے مہندی چمن میں دیکھنا رفتار یار
پھول منہ سے جھڑتے ہیں سننا ذرا تقریر کو
اپنے اشکوں کے سبب دریا رواں ہر گھر میں ہے
ہاتھ آئیں مچھلیاں گھر بیٹھے ماہی گیر کو
آسماں کے پار گزری دل نے ایسی آہ کی
اپنے ترکش نے کماں کی طرح پھینکا تیر کو
کوہ کن تجھ سے نہ پنہاں ہو سکا اسرار عشق
ہم چھپاتے استخواں کی طرح جوئے شیر کو
بہر استقبال جاؤں میں کئی تیر آپ سے
وہ نشانہ ہوں جو آتے دیکھوں اس کے تیر کو
ہو کے لاغر تیر کی مانند چھوٹے اے وزیرؔ
کہئے اب خانہ کماں کا خانۂ زنجیر کو
غزل
نوجوانوں سے تہی پایا کنار پیر کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

