نوحہ گر سے نہ کسی آئینہ خانے سے ہوئی
معتبر ذات مری میرے زمانے سے ہوئی
رنگ کیا کیا نہ بھرے حسن نظر نے لیکن
تیری تصویر مکمل ترے آنے سے ہوئی
قدر و قیمت ان اندھیروں کی نہ پوچھو مجھ سے
روشنی گھر میں چراغوں کے جلانے سے ہوئی
راستے کا کوئی پتھر نہیں پہچان بنا
جتنی تشہیر ہوئی خاک اڑانے سے ہوئی
مطمئن مر کے ہوا کرتا ہے جینے والا
جب بھی کم بھوک ہوئی ٹھوکریں کھانے سے ہوئی
کترنیں جوڑ کے تیار کیا اپنا لباس
عزت فقر فقیری کو چھپانے سے ہوئی
جب بڑھی حد سے خوشی بھیگ گئی ہیں آنکھیں
غم کی تحریک ہمیں جشن منانے سے ہوئی
اتنا غم پیاس کا اپنی نہیں نجمیؔ نے کیا
جتنی تسکین کوئی آگ بجھانے سے ہوئی
غزل
نوحہ گر سے نہ کسی آئینہ خانے سے ہوئی
معین نجمی