نتیجہ دیکھیے کچھ دن میں کیا سے کیا نکل آیا
کہیں پے بیج بویا تھا کہیں پودھا نکل آیا
رقم ہے جس پہ میرے آبا و اجداد کا شجرہ
مرے گھر کی کھدائی میں وہی کتبہ نکل آیا
سنا ہے آج سب عریاں نظر آئیں گے سڑکوں پر
میں اپنے گھر سے بن کر آج نا بینا نکل آیا
کچھ ایسے زاویے سے آج سورج نے حکومت کی
کے میرے جسم کے سایہ کا بھی سایہ نکل آیا
عصا جب حضرت موسیٰ نے مارا بہتے پانی پر
تو پانی پھٹ گیا اور سامنے رستہ نکل آیا
اے سپنوں کے پرندوں ہجرتوں سے روک لو خود کو
مری آنکھوں کے ریگستان میں چشمہ نکل آیا
تری نظروں کے اوزاروں نے میرے جسم خاکی کا
جگر کھودا تو ٹوٹے دل کا کچھ ملبہ نکل آیا
تو وہ کم ظرف جو ہر در پے دامن کو پسارے ہے
میں وہ خوددار جو دریا سے بھی پیاسا نکل آیا
غزل
نتیجہ دیکھیے کچھ دن میں کیا سے کیا نکل آیا
نواز عصیمی