EN हिंदी
نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے | شیح شیری
nasibon se koi gar mil gaya hai

غزل

نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے

مصحفی غلام ہمدانی

;

نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے
تو پہلے اس پہ اپنا دل گیا ہے

کرے گا یاد کیا قاتل کو اپنے
تڑپتا یاں سے جو بسمل گیا ہے

لگے ہیں زخم کس کی تیغ کے یہ
کہ جیسے پھوٹ سینہ کھل گیا ہے

خدا کے واسطے اس کو نہ لاؤ
ابھی تو یاں سے وہ قاتل گیا ہے

کوئی مجنوں سے ٹک جھوٹے ہی کہہ دے
کہ لیلیٰ کا ابھی محمل گیا ہے

اگر ٹک کی ہے ہم نے جنبش اس کو
پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے

کوئی اے مصحفیؔ اس سے یہ کہہ دے
دعا دیتا تجھے سائل گیا ہے