نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں
تجھی کو تیری کہانی سنانے آیا ہوں
جو نغمے سوئے ہوئے ہیں ترے خیالوں میں
انہیں کو آج میں گا کر سنانے آیا ہوں
بہا بھی دے مری حالت پہ آج دو آنسو
میں اپنے دل کی لگی کو بجھانے آیا ہوں
اگر وہ سامنے ہوتے تو ان سے یہ کہتا
ترے حضور میں بگڑی بنانے آیا ہوں
غزل
نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں
شکیل بدایونی