EN हिंदी
نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں | شیح شیری
nasib dar pe tere aazmane aaya hun

غزل

نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں

شکیل بدایونی

;

نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں
تجھی کو تیری کہانی سنانے آیا ہوں

جو نغمے سوئے ہوئے ہیں ترے خیالوں میں
انہیں کو آج میں گا کر سنانے آیا ہوں

بہا بھی دے مری حالت پہ آج دو آنسو
میں اپنے دل کی لگی کو بجھانے آیا ہوں

اگر وہ سامنے ہوتے تو ان سے یہ کہتا
ترے حضور میں بگڑی بنانے آیا ہوں