EN हिंदी
نشہ کرنے کا بہانہ ہو گیا | شیح شیری
nashsha karne ka bahana ho gaya

غزل

نشہ کرنے کا بہانہ ہو گیا

حنیف ترین

;

نشہ کرنے کا بہانہ ہو گیا
جب ذرا موسم سہانا ہو گیا

تجھ سے ملنا تو کجا اے جان جاں
تجھ کو دیکھے اب زمانہ ہو گیا

مڑ کے دیکھا جب بھی پیچھے کی طرف
آج دھندلا کل فسانہ ہو گیا

گلستاں زادے بہت ہی شاد ہیں
جب سے زنداں میں ٹھکانہ ہو گیا

جیت حق کی ظالموں کے واسطے
خوں بہانے کا بہانہ ہو گیا

سچ لکھوں گا چاہے مٹ جاؤں حنیفؔ
جھوٹ اب میرا نشانہ ہو گیا