نشیلی چھاؤں میں بیتے ہوئے زمانوں کو
لگا دو آگ اجل کے نگار خانوں کو
بتا رہے ہیں جبین حیات کے تیور
پناہ مل نہیں سکتی اب آستانوں کو
دیے جلاؤ کہ انسانیت نے توڑ دیا
جہان زر کے رو پہلے طلسم خانوں کو
ہر ایک گام پہ مشعل دکھا رہی ہے حیات
ستم کی آنچ میں نکھرے ہوئے زمانوں کو
ہزار دار و رسن ڈگمگا نہیں سکتے
اجل کی گود میں کھیلے ہوئے جوانوں کو
بہت قریب ہے وہ دور خوش گوار کہ جب
نگار امن سجائے گی کارخانوں کو
خود آگے بڑھ کے قدم چومتی ہے منزل شوق
یہ کس نے راہ دکھائی ہے کاروانوں کو
غزل
نشیلی چھاؤں میں بیتے ہوئے زمانوں کو
عرشی بھوپالی