EN हिंदी
نشاط آرزو کا اور کیا انجام لکھوں گا | شیح شیری
nashat-e-arzu ka aur kya anjam likkhunga

غزل

نشاط آرزو کا اور کیا انجام لکھوں گا

نعیم اختر

;

نشاط آرزو کا اور کیا انجام لکھوں گا
اسے بھی اک نہ اک دن حسرت ناکام لکھوں گا

مری روداد دل کی ابتدا تم انتہا بھی تم
تمہارا تذکرہ کیسے برائے نام لکھوں گا

قلم کی روشنائی جانے کیا الزام دے مجھ کو
میں اپنی صبح کے اوراق پر جب شام لکھوں گا

کتاب عشق جب بھی زندگی لکھوائے گی مجھ سے
وفا کے باب میں پہلے تمہارا نام لکھوں گا

تری فرقت میں کھویا میں تری قربت میں کیا پایا
نہ یہ تکلیف لکھوں گا نہ وہ آرام لکھوں گا

مری صبحیں خفا ہوں یا ہوں برگشتہ مری شامیں
دیا ہے دوپہر نے جو مجھے انعام لکھوں گا

سر مژگاں جو اختر بن کے چمکے تھے نعیم اخترؔ
میں اپنی زندگی ان آنسوؤں کے نام لکھوں گا