EN हिंदी
نرمی ہوا کی موج طرب خیز ابھی سے ہے | شیح شیری
narmi hawa ki mauj-e-tarab-KHez abhi se hai

غزل

نرمی ہوا کی موج طرب خیز ابھی سے ہے

عزیز حامد مدنی

;

نرمی ہوا کی موج طرب خیز ابھی سے ہے
اے ہم صفیر آتش گل تیز ابھی سے ہے

اک تازہ تر سواد محبت میں لے چلی
وہ بوئے پیرہن کہ جنوں خیز ابھی سے ہے

اک خواب طائران بہاراں ہے اس کی آنکھ
تعبیر ابر و باد سے لبریز ابھی سے ہے

شب تاب ابھی سے اس کی قباؤں کے رنگ ہیں
اک داستاں جبین گہر ریز ابھی سے ہے

گزری ہے ایک رو مژۂ خواب ناک کی
دل میں لہو کا رنگ بہت تیز ابھی سے ہے

آئینہ لے کے کھو گئی عمر نوا خرام
تازہ رخی کا موڑ بلا خیز ابھی سے ہے

مبہم سے ایک خواب کی تعبیر کا ہے شوق
نیندوں میں بادلوں کا سفر تیز ابھی سے ہے

اک تازہ مہر لب سے جنوں مانگتا ہے نقش
جنبش لبوں کی سلسلہ آمیز ابھی سے ہے

شاید کہ محرمانہ بھی اٹھے تری نگاہ
ویسے تری نگاہ دل آویز ابھی سے ہے