نقش وہ آنکھ میں اترا تھا کہ جاتا ہی نہ تھا
میں نے اس دھوپ کو ڈھلتے کہیں دیکھا ہی نہ تھا
روح کی پیاس بجھائے نہ بجھے گی کسی ڈھنگ
مجھ کو اس دشت کی پہنائی میں اگنا ہی نہ تھا
پہلے اس گھر کی ہر اک کھڑکی کھلی رہتی تھی
یوں ملا کرتے تھے جیسے کوئی پردا ہی نہ تھا
اب جو انسان ہواؤں میں اڑا پھرتا ہے
یہ کبھی پیڑ کے سائے سے نکلتا ہی نہ تھا
دوڑ پڑتا تھا جہاں ریت سے جلتے تھے قدم
ساتھ دریا تھا مگر ڈر سے اترتا ہی نہ تھا
ایسی سردی میں وہاں جا کے کہاں سستائے
پار ندی کے کوئی دھوپ کا خیمہ ہی نہ تھا
رات کا پیڑ اگا تھا کہ کوئی سایہ تھا
کیا کہوں ہاتھ لگا کر اسے دیکھا ہی نہ تھا
کتنے آزاد تھے برسات کے خود رو نالے
اپنی دنیا تھی کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا
حادثہ ایسا بھی پیش آئے گا مر جاؤں گا
خواب ایسا تو کبھی عمر میں دیکھا ہی نہ تھا
شاعری نے مجھے انسان بنایا ہے خلیلؔ
میں وہ شیشہ تھا کہ دنیا سے چمکتا ہی نہ تھا
غزل
نقش وہ آنکھ میں اترا تھا کہ جاتا ہی نہ تھا
خلیل رامپوری