EN हिंदी
نقش تصویر نہ وہ سنگ کا پیکر کوئی | شیح شیری
naqsh-e-taswir na wo sang ka paikar koi

غزل

نقش تصویر نہ وہ سنگ کا پیکر کوئی

زیب غوری

;

نقش تصویر نہ وہ سنگ کا پیکر کوئی
اس کو جب دیکھو بدل جاتا ہے منظر کوئی

کشش حرف تبسم ہے لبوں میں روپوش
گوشۂ چشم سے ہنستا ہے ستم گر کوئی

جرعۂ آخر مے ہے کہ گراں خوابیٔ شب
چاند سا ڈوب رہا ہے مرے اندر کوئی

چڑھتے دریا سا وہ پیکر وہ گھٹا سے گیسو
راستہ دیکھ رہا ہے مرا منظر کوئی

صدف بحر سے نکلی ہے ابھی لیلئ شب
اپنی مٹھی میں چھپائے ہوئے گوہر کوئی

کھو گیا پھر کہیں افلاک کی پہنائی میں
دیر تک چمکا کیا ٹوٹا ہوا پر کوئی

صف اعدا ہے مرے سامنے اور پشت پہ ہیں
نہ فرشتے نہ ابابیلوں کا لشکر کوئی

ٹوٹ کر گرتی ہے اوپر مرے چٹان کہ ہے
بیعت سنگ مرے دست ہنر پر کوئی

رات بھر طاقت پرواز اگاتی ہے انہیں
کاٹ دیتا ہے سحر دم مرے شہ پر کوئی

میرے قاتل نے بڑھا دی مرے سچ کی توقیر
اس صلہ کے لیے موزوں تھا پیمبر کوئی

آج اس قریۂ ویراں میں یہ آہٹ کیسی
دل کے اندر ہے کوئی اور نہ باہر کوئی

کسی جھاڑی سے کرن چھوٹی ہے سورج کی کہ زیبؔ
چمک اٹھا ہے کسی ہاتھ میں خنجر کوئی