نقش کہن سب دل کے مٹاؤ
پھر کوئی تصویر بناؤ
بستی بستی خون خرابہ
عقل کے مارو ہوش میں آؤ
پتھر بن کر جینا کیا
پھولوں کی ٹہنی بن جاؤ
مصنوعی کردار کے لوگو
سچائی کے روپ دکھاؤ
رات اندھیری سر پر طوفاں
سوچ سمجھ کر قدم بڑھاؤ
اپنوں کو تم چھوڑ کے رہبرؔ
کہاں چلے یہ راز بتاؤ
غزل
نقش کہن سب دل کے مٹاؤ
حسیب رہبر