نقش دور ماضی کے ذہن میں ابھرتے ہیں
بھولی بسری راہوں سے جب کبھی گزرتے ہیں
انگ انگ ہنستا ہے زاویے نکھرتے ہیں
جب وہ مسکراتے ہیں جب وہ بات کرتے ہیں
ہم انہیں پہ جان و دل بھی نثار کرتے ہیں
اپنا حال دل جن سے عرض کرتے ڈرتے ہیں
اس قدر نہ ہوتا زاں عارضی بلندی پر
اڑنے والے طائر کے بال و پر کترتے ہیں
نشۂ جوانی میں اڑتے ہیں ہواؤں پر
آسمان سے نیچے کب وہ پاؤں دھرتے ہیں
مہر و مہ کی گردش میں ڈھونڈھتے ہیں قسمت کو
اپنی اپنی کرتی پر کم نگاہ کرتے ہیں
جور و جبر کا ان کا سلسلہ نہیں ٹوٹا
گو وفاؤں کے ہم نے سب اصول برتے ہیں
کچھ سکون دیتی ہیں بدلیاں امیدوں کی
یاس و حزن کے طوفاں سر سے جب گزرتے ہیں
موجؔ بحر الفت میں لازمی ہیں غواصی
غرق ہونے والے ہی پار بھی اترتے ہیں

غزل
نقش دور ماضی کے ذہن میں ابھرتے ہیں
موج فتح گڑھی