نقش آخر آپ اپنا حادثہ ہو جائے گا
اور طے وہم و یقیں کا مرحلہ ہو جائے گا
گونج اٹھیں گے در و دیوار اپنے کرب سے
لفظ جو تشنہ ہے معنی آشنا ہو جائے گا
جسم بھی پگھلیں گے سائے بھی نہ ٹھہریں گے کہیں
جانے کب یہ سبز منظر بھی ہوا ہو جائے گا
لوگ سب اس کی کہانی جان لیں گے حرف حرف
اور وہ خوش پوش کھل کر بے ردا ہو جائے گا
پیڑ اگلیں گے سیاہی کا سمندر دیکھنا
موسم خوش رنگ مضطرؔ زخم پا ہو جائے گا

غزل
نقش آخر آپ اپنا حادثہ ہو جائے گا
فاروق مضطر