نقیب بخت سارے سو چکے ہیں
بالآخر بے سہارے سو چکے ہیں
کسی سے خواب میں ملنا ہے شاید
کہ وہ گیسو سنوارے سو چکے ہیں
مجھے بھی خود سے وحشت ہو رہی ہے
سبھی جذبے تمہارے سو چکے ہیں
کئی مایوس ماہی گیر آخر
سمندر کے کنارے سو چکے ہیں
شب تنہائی جوں توں کٹ رہی ہے
غم فرقت کے مارے سو چکے ہیں
مقفل پھر سے کر لو کوٹھری کو
سحرؔ سو جاؤ تارے سو چکے ہیں
غزل
نقیب بخت سارے سو چکے ہیں
وقار سحر