EN हिंदी
نقاب شب میں چھپ کر کس کی یاد آئی سمجھتے ہیں | شیح شیری
naqab-e-shab mein chhup kar kis ki yaad aai samajhte hain

غزل

نقاب شب میں چھپ کر کس کی یاد آئی سمجھتے ہیں

روش صدیقی

;

نقاب شب میں چھپ کر کس کی یاد آئی سمجھتے ہیں
اشارے ہم ترے اے شمع تنہائی سمجھتے ہیں

نہ سمجھیں بات واعظ کی ہم اتنے بھی نہیں ناداں
کہاں تک ہے بساط عقل و دانائی سمجھتے ہیں

توجہ پھر توجہ ہے مگر ہم تیرے دیوانے
تغافل کو بھی اک انداز رعنائی سمجھتے ہیں

ہمیں نا آشنا سمجھو نہ رسم و راہ منزل سے
کہاں لے جا رہا ہے ذوق رسوائی سمجھتے ہیں

ہم ایسے سرپھروں کو کام کیا ہے مرگ و ہستی سے
یہ سب ہے شوخئ ناز مسیحائی سمجھتے ہیں

ہم اے خلوت نشیں آخر میں تیرے دیکھنے والے
یہ کیوں ہے اہتمام محفل آرائی سمجھتے ہیں

ردائے پاکی و تقویٰ کی عظمت میں تو کیا شک ہے
روشؔ ہم تو غبار کوئے رسوائی سمجھتے ہیں