نقاب بزم تصور اٹھائی جاتی ہے
شکست خوردوں کی ہمت بڑھائی جاتی ہے
بھٹکنے لگتا ہے راہ وفا سے جب عالم
حدیث عشق ہماری سنائی جاتی ہے
متاع ہوش و خرد بے بہا سہی لیکن
در حبیب پہ یہ بھی لٹائی جاتی ہے
نظر سے ہوتی ہے لطف و کرم کی بارش بھی
نظر سے برق تپاں بھی گرائی جاتی ہے
وفور شوق کی دیکھو تو مصلحت کوشی
جنوں کی بات خرد سے چھپائی جاتی ہے
کس اعتماد سے آغاز دور الفت میں
خیال و خواب کی دنیا بسائی جاتی ہے
فضائے روح پہ تاریکیاں مسلط ہیں
حرم میں شمع عقیدت جلائی جاتی ہے
دکھا دکھا کے مآل جنوں کی فتنہ گری
بشر کو رسم مروت سکھائی جاتی ہے
متاع عشق و محبت نگاہ عالم سے
کس احتیاط سے فارغؔ چھپائی جاتی ہے

غزل
نقاب بزم تصور اٹھائی جاتی ہے
لکشمی نارائن فارغ