نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے
پرانی یاد تازہ ہو گئی ہے
ہے مجھ کو اعتراف جرم الفت
خطا یہ بے ارادہ ہو گئی ہے
چلے آؤ ہجوم شوق لے کر
رہ دل اب کشادہ ہو گئی ہے
گماں ہونے لگا ہے ہر یقیں پر
تری ہر بات وعدہ ہو گئی ہے
ملے ہو جب بھی تنہائی میں درویشؔ
کوئی تقریب سادہ ہو گئی ہے

غزل
نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے
طارق رشید درویش