EN हिंदी
نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے | شیح شیری
nami aankhon ki baada ho gai hai

غزل

نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے

طارق رشید درویش

;

نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے
پرانی یاد تازہ ہو گئی ہے

ہے مجھ کو اعتراف جرم الفت
خطا یہ بے ارادہ ہو گئی ہے

چلے آؤ ہجوم شوق لے کر
رہ دل اب کشادہ ہو گئی ہے

گماں ہونے لگا ہے ہر یقیں پر
تری ہر بات وعدہ ہو گئی ہے

ملے ہو جب بھی تنہائی میں درویشؔ
کوئی تقریب سادہ ہو گئی ہے