نخل امید و آرزو بے برگ و بار ہے
ناکامئ حیات پہ دل شرمسار ہے
دامان صبر ہجر میں گو تار تار ہے
وعدے کا ان کے پھر بھی ہمیں اعتبار ہے
فکر جہاں مجھے نہ غم روزگار ہے
پھر بھی نہ جانے کس لئے دل بیقرار ہے
شام فراق شدت غم بے شمار ہے
مشتاق دید آنکھ بھی اب اشک بار ہے
گلشن میں ان کو دیکھ کے محو خرام ناز
سمجھی نگاہ شوق کہ رقص بہار ہے
یوں تو ہزار بار اسے آزما چکے
پھر اعتبار وعدۂ غفلت شعار ہے
مدت ہوئی ہے قطع تعلق کئے ندیمؔ
اس جان انتظار کا پھر انتظار ہے

غزل
نخل امید و آرزو بے برگ و بار ہے
راج کمار سوری ندیم