EN हिंदी
نئی تہذیب سے بچوں کو بچاؤں کیسے | شیح شیری
nai tahzib se bachchon ko bachaun kaise

غزل

نئی تہذیب سے بچوں کو بچاؤں کیسے

ماہر عبدالحی

;

نئی تہذیب سے بچوں کو بچاؤں کیسے
خود تو بگڑا ہوں زمانے کو بناؤں کیسے

وہ نہ دیکھے میری جانب تو نہیں اس کی خطا
میں اندھیرے میں پڑا ہوں نظر آؤں کیسے

میرے آنگن میں تو آئی ہی نہیں موج بہار
کوئی پھولوں سے بھرا گیت سناؤں کیسے

چاہتا تو ہوں کہ دیکھوں پس پردہ کیا ہے
دسترس جس پہ نہ ہو اس کو اٹھاؤں کیسے

پر نکلتے ہی کوئی اس کو کتر دیتا ہے
اپنے بچوں کو فضاؤں میں اڑاؤں کیسے

وقت محدود دیا کام دیا لا محدود
زندگی بول ترا قرض چکاؤں کیسے

جسم پر چوٹ لگی ہو تو دکھاؤں ماہرؔ
دل پہ جو چوٹ لگی ہے وہ دکھاؤں کیسے