نئی سحر ہے یہ لوگو نیا سویرا ہے
طلوع ہو چکا سورج مگر اندھیرا ہے
خدا ہی جانے یہ دل کب خدا کا گھر ہوگا
ابھی تو اس میں بتان ہوس کا ڈیرا ہے
ابھی نہ دے مجھے آواز اے غم جاناں
ابھی تو شہر وفا میں بڑا اندھیرا ہے
نہ سائبان نہ آنگن نہ چھت نہ روشندان
اور اس پہ سب سے لڑائی کہ گھر یہ میرا ہے
یہ دار و گیر کی دنیا میں کہنا مشکل ہے
کہ کون اس میں لٹا کون یاں لٹیرا ہے
یہ سارے جھگڑے ہیں بس ایک دو پہر کے لیے
کہ نور مہر نہ میرا ہے اور نہ تیرا ہے
وفا نثار ہو اس کی وفا شناسی پر
ہزار گردشوں کے بعد بھی جو میرا ہے
غزل
نئی سحر ہے یہ لوگو نیا سویرا ہے
وفا ملک پوری